سمیع اللہ ملک
وطن عزیزمیں پند و نصائح کی مجالس میں اگر موجودہ حالات کے تناظر میں آئینہ دکھانے کی جسارت محض اس خوش گمانی کی نیت سے بھی کی جائے کہ چہرہ کے بگاڑ کو ذرا بنا سنوار لیں تو ہر طرف سے اس آئینے کے ساتھ ساتھ آپ پر بھی پتھروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔بے شمار بودے دلائل کا سہارا لیکر نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور بالآخر تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ غیروں کے خورشید کا سہارا لیکر ہماری ظلمتوں کا مذاق مت اڑائیں۔لیکن جو بات صحیح ہے اس کو غلط کیسے کہوں؟گمراہوں کیلئے راستے کی کیا قید!جب اپنی گمراہی کوہی سیدھا رستہ سمجھ لیا جائے تو سمجھانا بیکار ۔مجھے اپنی تمام تر خامیوں کا اعتراف ہے اور میں اس کا برملا اعتراف بھی کرتا رہتا ہوں لیکن کیا سچ اور حق بات کہنے اور لکھنے سے بھی منہ موڑ لوں؟مجھے اپنے بارے میں ایسا کوئی عارضہ بھی لاحق نہیں کہ آپ میری تحریروں کو پڑھ کر میرے بارے میں یہ گمان کریں کہ مجھے کسی داد و تحسین کی خواہش ہے لیکن دل میں یہ آرزو ہر وقت تڑپائے رکھتی ہے کہ وطن عزیز کی قسمت بدل جائے۔
ان گنت تعداد میں ٹیلیفون، ای میلز اور خطوط کا تانتا اس بات کی ہمت دلاتا رہتا ہے کہ یہ مشن جاری و ساری رہنابہت ضروری ہے۔میں یہ تمام خطوط اور ای میلزپڑھنے کی بھی پوری کوشش کرتا ہوں اور کچھ کے جوابات بھی دیتا ہوں۔لیکن کچھ مراسلے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو بار بار پڑھنے کے باوجود ان کا جواب دینے سے قاصر رہتا ہوں۔لیکن شاید آپ کے پاس اس کا کوئی جواب ہو!دن اور رات عجیب و غریب واہموں میں کٹ رہے ہیں۔
’’بہت سمجھایا آپ کو،بے شمار دلائل بھی سامنے رکھے لیکن آپ کسی کی سنتے اور مانتے کب ہیں!شاید ہماری آواز میں اتنا زرو نہیں کہ جس میں آپ کی آواز دب کر رہ جائے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو ہماری صدا سننی پڑے،نہ ہمارے قلم کی وہ رفتار اور برق بازی جو آپ کے ارادوں کا منہ موڑ سکے اور آپ کے ضمیری طوفان کو روک سکے۔
جانتے ہیں کیوں روکنا چاہتا ہوں آپ کو؟آپ کی آواز کو؟آپ کے الفاظ کی آتش سے بچنے کیلئے۔بارہا چاہا کہ آپ کی چیخوں سے بے بہر ہ رہوں مگر کیسے؟کچھ دنوں کیلئے آپ کے مضامین پڑھنے پر خودساختہ پابندی لگائی لیکن اس ارادہ پر بھی قابو نہ رکھ سکا کہ بازگشت سے اب پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا ہے۔
خود تو آپ مضطرب بھی ہیں ،طوفان بھی،کرب کا میدان بھی اور با ضمیر بھی،انہی امراض کا نتیجہ آپ کی تحریریں بھی ہیں مگر.......!!!آپ کیوں نہیں سمجھتے ؟بھینسوں کے آگے بین بجانے سے کیا حاصل؟برسوں سے لکھنے کا مرض پال رکھا ہے آپ نے ،بے شمار مضامین اور کتابیں بھی لکھ ڈالیں،لوگوں کو بے کل کیا اور خود بھی ہوئے،قلم کو دن میں چین آیا نہ رات کو......مگر اونٹ نہ اِس کروٹ بیٹھا نہ اس کروٹ۔
میرا مشورہ اب تو مان لیں!چھوڑیئے،اب الفاظ کے زہر نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔آپ کچھ بھی کہیں ،بے ضمیروں پر اثر نہیں ہوتااور با ضمیر وں پر اثر کا کیا فائدہ!میرا یہ سچ آپ کو بھی کڑوا لگے گا ورنہ کوئی تو بدلا ہوتا۔کیا کہا ’’بدلا ہے‘‘!دن یا رات کا موسم یا نظام؟انسانوں کو بدلئے ناں......ہاں یہ بھی سچ کہا !بھلا انسان ہیں کہاں؟ورنہ خالد بن ولید سے لیکر محمد بن قاسم تک انسان ہی تو تھے۔ہاں آدمیوں کی بھیڑ ضرور ہے کہ دم لینا یہاں محال ہو رہا ہے!بھیڑ بھی ہے اورمرے ہوئے ضمیروں کی لاشوں کا تعفن بھی!اب اسی تعفن سے مزید اموات کا سلسلہ چل نکلا ہے۔
آدمیوں کی بھیڑ سے انسانوں کی تلاش؟کیا خوب ہیں آپ!نمک کی کان سے مٹھاس کی تلاش کر رہے ہیں!!!ہاں آپ اور دوسرے اہل قلم جو بے چین روحوں کی مانند ہیں وہ بھی تو پورے انسان نہیں آدھے ضرور ہیں۔پوار انسان توعافیہ صدیقی کو کہتے ہیں جس نے قلم کی بجائے تلوار کو اپنے ہاتھوں کی زینت بنایا۔ہاں وہی عافیہ صدیقی جس کیلئے آپ کے کئی مضامین نے ہم کو ہلکان کر دیا ،خود بھی بے چین رہے اور ہم سب کو بھی رلاتے رہے،جانتے ہیں ناں آپ!
اس پتلی دھان پان کی لڑکی کو یہ پیغام بھیجنا مت بھولئے کہ اب محمد بن قاسم کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔عافیہ صدیقی کو یہ پیغام بھی ضرور دیں کہ جب قصر سفید کے گھمنڈ ی فرعون کی جیل سے تمہاری روح کو اپنے جسم سے رہائی ملے تو اس مْردوں کی زمین پر مت آنا،ہاں یہی پاکستان جو اب مْردوں کی زمین ہے۔
کیا کریں گی یہاں آکر؟وہ زندہ لاش ہی سہی مگر یہ تو خود مْردوں کی بستی ہے ....ہم انہیں وہ ماہ و سال ،زندگی کی وہ بہاریں،جو انہوں نے سسکتے بلکتے ہوئے تنہا گزار دیں،کہاں سے لا کر دیں گے؟خدارا! آپ وہاں سے آزاد ہوتے ہی روح کو بھی آزاد کروالیجئے گا!!!
حریت کااستعارہ ،کشمیری بزرگ رہنماسیدعلی گیلانی ،جوپچھلے سات سال سے گھرمیں نظربندہیں،ان کے ساتھ ہم نے کیاسلوک روارکھا۔یہ توان کے اصولی مؤقف کی کامیابی ہے کہ ان کی استقامت نے آپ کومجبورکردیاکہ اب آپ ان کوپاکستان آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔کیاکسی نے سیدآسیہ اندرابی کے زخموں پرمرہم رکھنے کی کوشش کی
،جن کے شوہرکوایک ناکردہ گناہ کے جرم میں ایک طویل عرصے سے پابندسلاسل کردیاگیاہے اورخوداس کوپاکستان کی محبت میں گرفتارکرکے ۲۲روزتک تھانے میں قیدرکھاگیاجس کی وجہ سے وہ ان دنوں چلنے پھرنے میں سخت تکلیف محسوس کررہی ہیں۔پاکستانی وزارتِ خارجہ یاحکومت کے کسی کارندے کواتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ اقوام عالم کے سامنے برہمن کے ان مظالم کے خلاف آوازاٹھائے۔
مجھے رنگینی صحن چمن سے خوف آتا ہے یہی ایام تھے جب لٹ گئی تھی زندگی اپنی
کبھی سوچاہم نے کہ اب تک اپنے ملک کولوٹنے والوں کے ساتھ ہمارارویہ کیاہے؟دنوں میں اربوں کھربوں روپے لوٹ کرملک سے باہرمنتقل کردیئے گئے، سابقہ حکومت کاوزیرپٹرولیم داکٹرعاصم اپنے دورِ اقتدارمیں یومیہ دوکروڑروپے رشوت لیتارہا،اس کے علاوہ دوسرے تمام حکومتی اعلیٰ اہلکاروں نے بھی جی بھرکراس ملک کولوٹنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی اوراب مہنگے سودپربیرونی قرضے لیکرپرانے قرضے اتارے جارہے ہیں اورزرمبادلہ کے ذخائرتاریخ سازہونے کی نویدیہ سنائی جارہی ہے۔اس وقت ملک ساٹھ ارب ڈالرکے غیرملکی ملک قرضے کے بوجھ تلے سسک رہاہے اورہمارے دشمنوں کی کوشش ہے کہ پاکستان کومسلسل اس حالت میں مزیدمبتلارکھاجائے تاوقتیکہ کہ اس پربیرونی قرضوں کابوجھ ۸۰/ارب ہوجائے تاکہ اس قرض کے سودکی ادائیگی بھی اس کیلئے ناممکن ہوجائے۔وطن عزیز کودیوالیہ کرنے کی سازش ہورہی ہے تاکہ اس کی قیمت چکانے کیلئے اس کی ایٹمی قوت کواپنے ہاتھوں سلب کردیاجائے ۔
’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘کانعرہ لگانے والے اپنی کرپشن کاپول کھلنے کے بعددبئی میں بیٹھ کرملک کوبربادکرنے کی سازشوں میں شب وروزمصروف ہیں۔اپنے عرب دوستوں کے توسط سے لندن میں جنرل راحیل سے ملنے کے لاکھ جتن کرنے کے بعدناکام واپس لوٹ گئے توصہیونیوں کے ایجنٹ اوربے نظیرکے دست راست مارک سیگل کو پرویزمشرف کے خلاف بیان کیلئے میدان میں اتاردیاکہ کسی نہ کسی طورپرفوج کودباؤ میں لایاجائے۔اپنے دوراقتدارمیں مارک سیگل کوکیوں نہیں استعمال کیاگیا؟مارک سیگل کس طرح اورکیوں بے نظیرکادست راست رہا،اس کی تفصیلات امریکامیں پاکستان کے سابق سفیرجمشیدمارکرکے ذمے قوم کاایک قرض ہے جوانہیں ہرصورت چکاناہوگاکہ وہ کیوں مارک سیگل کی مخالفت میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوناچاہتے تھے اوربے نظیربھٹوسے اختلافات کی وجوہات کیاتھیں؟
عدلیہ بحال ہوگئی لیکن ضمیر بحال نہ ہوسکا،تا حال آپ کا قلم تو بحال ہے،اسی کے کرتب دکھائیں،شاید عوام اسی سے بہل جائیں اور چپ چاپ مہنگائی،ناانصافی اور عریانی و فحاشی کے سیلاب میں ڈوب جائیں.....بے فکر رہیں بڑا اجر و ثواب ملے گا اس کا ....۱۱۱‘‘
فقط آپ کا خوابیدہ ضمیر
آنکھ کھلی تو پسینے سے شرابور کانپتا جسم دیکھ کر بھی یقین نہیں آرہا کہ یہ خواب تھا۔
گردش دہر ہی کیا کم تھی جلانے کو تو بھی آ پہنچا ہے دہکتے ہوئے رخسار کے ساتھ
’’بہت سادہ ہو تم !میں کہاں سے با ضمیر ہو گیا ہوں ‘کہاں کی بے چینی اور بے کلی،کون سا کرب!میں تو ایلیٹ کلاس سے ہوں،مزے اڑا رہا ہوں،دنیا کی تمام آسائشوں سے لطف اندوز ہورہاہوں۔کبھی ایک لمحے کیلئے بھی ایسے کسی کرب سے نہیں گزرا جس سے تم ہرروز وطن عزیز پاکستان میں گزرتے ہو۔ہاں ! یہ تم نے صحیح کہا ،الفاظ کی بازی گری آتی ہے مجھے اور میں مداری کی طرح قلم سے ہر روز کرتب دکھاتا ہوں۔اور ہاں!مجھ میں تو خود آگ نہیں تو پھر میرے الفاظ میں کہاں سے آگئی یہ آگ!
بہر حال آئینہ دکھانے پر تم بڑ ے خوش نظر آرہے ہو ،میں بھی تمہارا بڑا مشکور ہوں’’بہادر ہمیشہ با وقار موت کا سامنا کرتے ہیں‘‘اور میں کہاں سے با وقار ہو گیا۔ہاں !میں نے کہیں یہ ضرور پڑھا تھا کہ :جوگی کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کرتے‘وہ صرف خواہشات دریافت کرتے ہیں ‘کسی کو محل بنانے کی خواہش ہو تو منع نہیں کرتے۔اپنے اگلے پھیرے میں بھی صرف خواہش جاننا چا ہتے ہیں ،کسی بھی خواہش کا اظہار کیا جائے تو کامیابی اور خوش رہنے کی دعائیں دیکر اپنا راستہ لیتے ہیں لیکن اگر کوئی ان کا دامن تھام کر خود ہی چیخ چیخ کر کہے کہ میری ساری خواہشیں تو پوری ہو گئیں مگر میں اب بھی بے چین ہوں ،پہلے سے کہیں زیادہ مضطرب!......تو اسے سکون کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔
میں کہا ں جاؤں؟میں کیا کروں؟کائنات لا محدود ہے۔میں یہاں لمحے بھر کوچمکنے کے بعد بجھنے والا ہوں،اب میں کچھ کرنا چاہتا ہوں لیکن ........اس طرف سے زمین کھود کر ادھر نکل جاؤں،اس طرف سے کھود کر واپس اس طرف نکل آؤں......اپنی موجودہ حالت سے نجات ممکن نہیں!اس لئے براہ کرم میرے سہانے خوابوں کو تو برباد مت کرو!‘‘
یہ آنکھ کا بادل تو برستا ہی نہیں ہے اور عمر کے دریا میں روانی ہے بہت کم
وہ دن جو گزرنے تھے‘گزر ہی گئے آخر اب مہلت گریہ ہے نہ ہے فرصتِ ماتم